Quantcast
Channel: Jinnah – Pak Tea House
Viewing all articles
Browse latest Browse all 22

پاکستانی سیاست کے مینار

$
0
0

تحریر: تنویر آرائیں

pakistani-politics

پاکستان میں سیاست کرنے لئے عقلمندی، رواداری، اخلاقیات، شرم وحیا یا غیرت ضروری نہیں ہے اور صرف ان چیزوں کے سہارے آپ سیاست میں کامیاب نہیں ہو سکتے اور نہ ہی اعلیٰ تعلیم، پالیسی سازی میں مہارت، مسائل سے نمٹنے کے تجربے یا حکمت کی ضرورت ہے. پاکستان میں سیاست میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے آپ کو فقط بیچنے کا سلیقہ ہونا چاہیے، غلط سمجھنے کی ضرورت نہیں میں تجارت کی بات ضرور کر رہا ہوں لیکن سبزی، کپڑا، صابن، سرف یا سرخی پاؤڈر فینائل بیچنے کی بات نہیں کر رہا میں تو مذہب، ذات، قوم، فرقہ، علاقہ اور قبیلہ، احساس و جذبات وغیرہ بیچنے کی بات کر رہا ہوں۔

پاکستان میں صرف ان چیزوں کو بیچنے اور استعمال کرنے سے ووٹ ملتا ہے یہ بات ہمارے ملک کے سیاست دان اچھی طرح جانتے ہیں اور ان میناروں کا بھرپور استعمال کر کے وہ اپنی سیاست کو پانی دے رہے ہیں۔

پاکستانی سیاست صرف اوپر درج کئے گئے غیر اخلاقی، غیرمنطقی اور غیر ضروری اصولوں کے مینار پر کھڑی ہے جس وجہ سے نہ تو پاکستانی عوام آزادی سے لے کر آج تک ایک قوم بن پائی ہے نہ ہی پاکستانی اور نہ ہی مسلمان، بلکے پاکستانی آج بھی سندھی، پنجابی، پٹھان اور بلوچ ہے اور اس سے بھی پسماندگی یہ کے سندھی سے پہلے خاصخیلی، پنھور، میربحر، سمیجو، دل، سومرا، سماں، سٹھیا اور دیگر دائروں میں بٹ جاتے ہے یا پھر زہری، مگسی، جلبانی، لاشاری، بگٹی پنجابی سے پہلے جٹ، گجر، اعوان، راجپوت، ڈوگر، وٹو، آگے بڑھیں تو کاکڑ، یوسفزئی، نیازی، مروت یا کچھ اور۔

یہی سرشتہ کچھ مذہبی بنیادوں پر ہو رہا ہے مسلمان کہلوانے سے پہلے سنی، وہابی، شیعہ اہلحدیث یا کچھ اور الگ الگ دائروں میں تقسیم ہیں. اسی طرح جب گورے برصغیر میں آئے تو انہوں نے “تقسیم اور حکومت” (Divide & Rule ) کا فارمولا استعمال کرتے ہوئے برصغیر میں صدیوں سے مقیم ہندو اور مسلم کو رائے شماری کر کے دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کر دیا اور اقلیت و اکثریت کی تیز دھار پر کھڑا کر دیا جس کے بعد ہی وہ اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوئے. ہندو مسلم کو دو دائروں میں تقسیم کرکے برصغیر کے باسیوں کی طاقت کو کم کیا گیا اور نفرتوں کی بٹھی میں جھونک دیاگیا.اسی تقسیم نے آگے جا کر پاکستان اور بھارت کا روپ دھارن کیا اور آگے بڑھی تو بابری مسجد، مندر اور گرجے راکھ ہو گئے. گھر، بستیاں، محلے شہروں کے شہر خون میں نہلا دے گئے. اسی تقسیم نے ہندو مسلم فسادات کا کارنامہ سرانجام دیا جس میں کئی معصوم جانیں لقمہ اجل بنیں اور کئی آبروئین لٹ گئیں. سلسلہ پھر بھی نہ تھما اور آج تک جاری ہے۔

آج پاکستان کے سیاستدان بھی اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستانی قوم کے ٹکرے ٹکڑے کر چکے ہیں اور مزید ٹکڑوں میں تقسیم کی کوشش جاری و ساری ہے. انہیں حب الوطنی، مسلمانیت، انسانیت صرف اس وقت یاد آتی ہے جب ان کے اپنے مقاصد ان چیزوں سے وابستہ ہوں، وگرنہ ان کی بے حرمتی ہی ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔

آج بھی حوس اقتدار کے لئے تقسیم در تقسیم کا عمل جاری ہے اس سے معصوم لوگ مرتے ہیں تو مریں کٹتے ہیں تو کٹیں، چاہے بستیاں، قصبے، مندر جلیں یا گرجے گھریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

پاکستان میں سیکڑوں کے سے حساب سے موجود رنگیلی فیکٹریاں جن میں روزانہ نئے فتوے صرف اس لئے تیار ہوتے ہیں کے ان کے عقائد کو فائدہ اور دیگر کو نقصان پہنچے یا پہنچایا جاۓ. قبیلوں اور ذاتوں کو جمع کرکے “راجونی کلچر” کو صرف اس لئے فروغ دیا جاتا ہے کہ اس کے توسط سے سیاسی عزائم حاصل کیے جائیں۔

570 سال قبل جن لوگوں نے پریس کے قیام پر پابندی صرف اس وجہ سے لگائی تھی کے تعلیم کو ایک خول میں بند کر دیا جاۓ اسی طبقے کے لوگ آج بھی ہماری جدید پالسیوں پر پابندیاں لگانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں اور ہر پالیسی و قانون ان کی اجازت کے سوا اس ملک میں رائج نہیں کیا جا سکتا، ہماری سیاسی جماعتیں بھی ان کے ہاتھوں یرغمال ہیں کیوں کے یہی مخصوص مفاد پرست طبقہ انتخابی مہم میں ان جماعتوں کی مدد کرتا ہے۔

پاکستانی سیاست میں اس مفاد پرست ٹولے کا سب سے بڑا عمل دخل ہے. یہ ٹولہ انتخابات کے دوران اپنی سیاسی جلسے جلوسوں کو مذہبی رنگ دیکر عوام کے جذبات اپنی حمایت یافتہ سیاسی پارٹیوں کے حق میں ہموار کرتے ہیں. یہ لوگ مسجد کے ممبروں کے تقدس کا خیال ایک طرف رکھ کر انھیں بھی اپنے عزائم کے لئے استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔

جس ملک کے بانی کو خوش کرنے کے لئے اور اس کی حمایت حاصل کرنے کے لئے اس وقت کا اہم سیاسی پیر “پیر الہی بخش” جمع کے خطبے میں قائد اعظم کا نام لے سکتا ہے اور اس ان کے نام کو خطبے میں شامل کرنے کے لئے جدوجہد کر سکتا ہے تو اس ملک میں مسجد و ممبر سیاسی عزائم کے حاصلات کے لئے استعمال ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔

پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک مفتی صاحب مفتی محمّد یوسف رضوی جو کے “ٹوکے والی سرکار” کے نام سے مشہور ہیں. یہ بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے مولوی عید میلادالنبی کے موقع کی مناسبت سے منعقد کئے گئے جلسے میں مسلم لیگ نواز کے ایک امیدوار کے جلوہ افروز ہوتے ہی مجمعے سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں کے ووٹ اسے دینا جو رسول پر صلوات بھیجتا ہو مطلب کے بریلوی مسلک سے ہو. موصوف کا اشارہ جلسے میں آمد لانے والے لیگی امیدوار کی طرف تھا۔

ن لیگ ان ٹولوں کی طاقت کو اچھی طرح اس وقت جان گئی تھی جب ان کے قائد، موجودہ وزیراعظم میاں نواز شریف کے قادیانوں کو اپنا بھائی کہنے کے بیان پر شور شرابہ برپا ہو گیا تھا. اس بیان کے بعد مجلس احرار الہند کے قومی صدر مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی نے کہا تھا کے میاں نواز شریف اپنے الفاظ واپس لیں ورنہ ہم فتویٰ جاری کریں گے اور انہیں دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جاۓ گا۔

پاکستان جغرافیائی طور پر تو 1947 میں آزاد ہو گیا تھا مگر پاکستانی عوام ابھی تک مذہبی، قبیلائی، لسانی تقسیم سے ذہنی طور پر آزاد نہیں ہو سکیں ہیں جس دن پاکستانی انسانیت کی راہ پر چل پڑے تو اس دن سے ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہو جاۓ گا اور تشدد و نفرت پھیلانے والی فیکٹریوں کو بھی تالے لگ جائیں گے۔

پاکستانی سیاست میں اسی دن تبدیلی آئی گی جس دن پاکستان میں بسنے والی مخلوق ان کھوکھلے سیاست کے میناروں کو فتح کر کے مذہب، ذات، قوم، قبیلے اور علاقے کو ایک طرف رکھ کے ایماندار، تجربیکار، مخلص اور دیانتدار لوگوں کو اپنا نمائندہ منتخب کرے گی. یورپ کے بھی جو جو ممالک چرچ سے سیاست اور ریاستی معاملات کو آزاد کرتے گئے تو ترقی ان کے قدم چومتی گئی۔

______________________________________________

لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرtanvirarain@کے نام سے لکھتے ہیں۔

______________________________________________


Viewing all articles
Browse latest Browse all 22

Trending Articles